افتخاررحمانی
سب ایڈیٹربصیرت آن لائن
اپنی اس کج مج سی تحریر کی ابتداء عظیم دانشور،مفکرقوم وملت مولانا محمدولی
رحمانی کے اس پیغام سے کرناچاہتے ہیں جسے انھوں نے ایک موقعہ پرخانقاہ
رحمانی کے منبرسے خطاب کرتے ہوئے قوم کودیاتھا،فرمایا:
’’جس ملک میں ہم اورآپ سانس لے رہے ہیں وہاں سیاسی وزن کے بغیر ملت کی
پروقارزندگی او رمضبوط معاشرہ کاتصور نہیں کیا جاسکتا،ابھی جوسیاسی عمل
جاری ہے اور صوبوں اورمرکزمیں حکومت کے بننے اور بگڑنے کا جوبھی سلسلہ ہے
اس میں مسلمان بحیثیت ملت کہیں بھی اپناودجوداور اپناوزن محسوس نہیں کراسکے
،حکومت بن رہی ہے ،ٹوٹ رہی ہے مگرہم آپ بحیثیت ملت کہیں نہیں ہیں اگرہم
میں اقتدار کو متأثرکرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو ہم اسلامی معاشر ہ کی
حفاظت نہیں کرسکتے اور دینی واجتماعی تشخص بھی برقرارنہیں رکھ سکتے عددی
اکثریت (ووٹو ں کی اکثریت)کا کھیل اپنے اندربڑی طاقت رکھتا ہے ہمیں اسے
سمجھنا ہوگا۔
دیکھ لیجئے !آج اقلیتوں کے نام پرپوراڈرامہ رچاجارہاہے مگرانہیں کوئی پوچھ
نہیں رہانہ وہ پوچھوانے کی صلاحیت پیداکررہے ہیں اورجب وہ اس الٹ پھیرمیں
باوزن نہیں ہوسکتے تو حکومت میں بھی باوزن نہیں ہوسکتے او رنہ اپنے حقوق کو
اس الٹ پھیر کے بیچ سے حاصل کرسکتے ہیں؛اس لیے اپنے وجودکیلئے آئینی
،سماجی ،دینی،سیاسی،او راجتماعی حقوق کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کی طرف
ملت کے قدم بڑھیں‘‘ (مولانا کے ایک خطبہ سے اقتباس)
مذکورہ اقتباس ملاحظہ فرمایااب ملت کی سیاسی گمرہی ودرماندگی نیزمسلسل
غفلت شعاری کی سمت نظر کریں تو بداہتہً محسوس ہو گا کہ آپ کا او رہمارا
وجوداس عددی کھیل کی شاطرانہ چالوں سے کوسوں دور ہے اور اس امر کی فہم سے
بھی کوسوں دور ہے کہ ہم کیا ہیں،ہمارا وجودکیا ہے اورملی ،دینی واجتماعی
تشخص کی کیا وقعت ہے؟اگربروقت ہم اور آپ اس امرِ گراں کی فہم وادراک سے
ماضی کی طرح اب بھی غفلت شعاری اختیارکی تو بالیقین یہ تسلیم کرلیں کہ وہ
دن زیادہ دور نہیں کہ ہم سے یہ واضح لفظوں میں کہہ دیا جائے کہ مسلمانوں کی
وجود اس دھرتی کیلئے لاشی اورلغوِ محض ہے ؛کیونکہ اس کیلئے تمام سازشیں
اور اس کے بکھرے ہوئے عناصر کی تلاش جاری ہے کہ کس طرح مسلمانوں کواس ملک
کیلئے ایک اجنبی او رپردیسی قرار دیاجائے اور یہ امر بہت ہی کربناک ہے کہ
ملک کے دوسرے سب سے بڑے طبقہ کوملک سے بے دخل کردینے کی تمام کوششیں ازبر
کی جارہی ہیں۔
حالیہ لوک سبھاانتخابات میں مودی لہر کو ہوادے کرجس طرح نام نہاد
سیکولرپارٹیاں مسلم مسائل سے چشم پوشی اختیار کی وہ نہایت ہی ناگفتہ بہ ہے
تمام سیکولر پارٹیوں نے اپنی تمام قوت و توانائی مودی لہر کے روک تھام کے
منافقانہ روش میں صرف کردی گویااس وقت کا سب سے بڑامسئلہ مودی لہر کا سدباب
ہے، جب کہ حقیقتِ حال یہ تھی کہ مودی لہر نام کی کوئی چیز نہ تھی جیسا کہ
بعض سیکولرشبیہ رکھنے والے سیاستدانوں نے اس کا اعتراف کیا ؛بلکہ اس نام
نہاد اصطلاح کی بندش میں صرفِ توانائی اپنی خامیوں،کمزوریوں،مسلم مسائل سے
چشم پوشی اور اپنی نااہلیت پرپردہ ڈالنے کی سعی لاحاصل تھی اگران تمام
سیکولرپارٹیوں کے روبرومودی لہر کاعفریت منھ پھاڑے کھڑاتھاتو اس وقت لازمی
تھا کہ اس لہر کی ناتوانی،ضعف اور لاغری کی عیاں کرکے زمینی اور مثبت حقائق
پر مبنی مسائل کے تدارک کو اپناایجنڈہ قراردیتے لیکن جہاں تک راقم کی
معلومات میں ہے وہ یہ کہ تمام پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشورمیں’بھاجپامکت
دیش‘بنانے کا اعلان کیاتھااوراس ہندوستانیت پرمتوقع کاری ضرب کا اندیشہ بھی
ظاہر کیا تھاکہ اگرمودی ملک کا وزیر اعظم بن گیاتوپھرہندوستانیت کا مفہوم
خطرہ میں پڑجائے گااوراس سے آگاہ بھی کیاتھا مگر نتائج اس کے برعکس
برآمدہوااور خوش طالع مودی ملک کا ایسا اولین وزیراعظم بن گیاجس کی پیشانی
پر آرایس ایس کے افکارونظریات کی تبلیغ کاداغ لگاہواہے ،اگرسیکولرپارٹیوں
نے بروقت عقل ودانش کام لیاہوتا تومیںیہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ
یہ خوش طالع اس متذکرہ عقل ودانش کی کاری ضرب کے باعث اپنی طالع زبونی کو
کوستاہوانظر آتالیکن نتائج کے بعد’اگر’‘مگر‘کاموقع نہیں ملتابلکہ یہ وقت
احتساب کاہواکرتاہے ۔
آخر آزادبھارت کے ۶۵/سالہ تاریخ میں اقلیت کے نام پرہمیں کیا ملاکون کون
سی مراعات کوہمارے لیے موزوں خیال کیا گیا؟کس طرح کے ریزرویشن کوملت کیلئے
مفیدتصورکیاگیا؟یہ سوالات اپنی جگہ مسلّم ہیں اور ان کا ایک ہی نقطۂ جواب
ہے کہ ہم اقلیت میں تھے اور ہمارے پاس کوئی مؤثرطاقت نہیں ہے۔ حیرت کی بات
تو یہ کہ سیکولر جماعت نے ہم سے ہمدردی بھی ظاہرکی توہمیں تحفتاًََ تسلی
آمیزکلمات کی نوازش کوکافی خیال کیا گیاجب کہ ضرورت یہ تھی کہ ہمارے پیش
آمدہ مسائل کا تدارک کیا جاتااور ستم کی بات تویہ ہے کہ اس تحفہ میں ہمارے
لیے خو دکشی کے اسباب بھی موجو دتھے ،اس اصطلاح کے پس پردہ سیکولرزم کی
مطلق العنانی اور بالا دستی
بھی کارفرما تھی کہ جس کے تحت ملت کے ہر ایک
فرد کوگذرانِ زندگی پرمجبورکیا گیا۔ اگر سیکولرزم کا وہی مفہو م ہے جو
قاموس اورڈکشنری میں ہے توپھراس مفہوم کی ادائیگی اوراظہارمیں کون
ساامرمانع ہوتاہے؟اورپھرجب عدالتی کاروائیاں’آستھا‘کے بنیادپرفیصل ہوں
توکیا ایک ہی طبقہ کی’آستھا‘کو ملحوظِ خاطررکھاجائے گاکیوں نہیں دوسرے طبقہ
کی عقیدت کا احترام کیاجاتا؟یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں اور
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے اندراقتدارکو متأثرکرنے کی کوئی صلاحیت
موجودنہیں ہے۔یادکیجئے!مسلم پرسنل لامیں ترمیم یا پھرچندنام نہادروشن خیال
مغرب زدہ مفکروں کی رائے کے تئیں بے سروپا’اصلاح‘کی احمقانہ کوشش کیوں
ہوئی؟کبھی ہم نے اپنی اس غفلت و مدہوشی کے عالم میں بھی سوچنے کی کوشش کی
کہ آخر ایسا کیوں ہورہاہے؟کیا چودہ سالہ لازوال آئین مغرب نوازوں کے سامنے
عصری تقاضوں کو پورانہیں کرتاہے؟شرعی مصادروہی ہیں جوکل تھے اور
یقیناروزمحشر تک یہی رہیں گے،یہ لازوال آئین اور دستورحیات بایں معنی قابل
ترمیم او راصلاح ہے کہ ہم نے ان آگہی اور عصری شعورسے ترک تعلق قائم کر
لیاہے جس کے ہم امین ووارث بنائے گئے تھے اور ہم پربایں معنی مسلسل تازیانے
پڑرہے ہیں کہ ہم نے خود اپنی موروثی شعوروادراک کو اپنے جمودو تعطل کی
نذرکردیاہے۔
لوک سبھا کے بعد ودھان سبھاکے منعقدہ الیکشن کا منظر نامہ ملاحظہ کریں
راجستھان اورمہاراشٹرمیں منعقدہ اسمبلی کے انتخابات میں سیکولرجماعت اور
فرقہ پرست جماعت کے جاری انتخابی منشورکاجائزہ لیجئے تووہاں بھی مسلم مسائل
سے عدم دلچسپی اور اس سے یک گونہ تنفرکاشائبہ نظر آئے گا،راجستھان میں
جہاں کانگریس بی جے پی کے سامنے دم بھرتی ہوئی نظر آئی تو وہیںیہ بھی صاف
نظرآیاکہ یہاں محاذآرائی محض اقتدارکیلئے ہے عوامی مسائل او رکاشت کاروں کے
پریشان کن امورسے کوئی تعلق نہیں ایک جماعت ذلت آمیزشکست سے بچناچاہتی ہے
تو ایک جماعت اقتدارکی شدیدخواہاں ہے اوراس خواہش کی تکمیل کیلئے تمام
ناممکنات کو قریب الامکان بھی تصورکرتی ہے،اس عددی کھیل میں رائے دہندگان
ملک کے ہر ایک مذہب کے لوگ ہیں ہندوبھی ہیں تو مسلمان بھی ۔ہر ایک
فردبشرمسائل کاتدارک چاہتاہے لیکن بڑے ہی افسوس او رتحسر کی بات ہے کہ
حکومت کی تشکیل کے بعد کوئی پوچھنے والا نہیں ہواکرتااور مسائل یو ں ہی
تشنہ رہ جاتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ کربناک شق ہے کہ اس عددی کھیل میں بحیثیت
ملت مسلمان کہاں ہیں؟کسی طرح کی کوئی بحث و
گفتگونہیں۔ذراغورکیجئے!مہاراشٹرمیں ایک نئی حکومت شیوسیناکے اتحاد کے
بغیرقائم ہوئی ہے اور یہ بھی اس ہندوستان کی سیاست کا’’چمتکار‘‘ہے کہ وہاں
شیوسیناکے کاندھے کاسہارالیے بغیر جمہوریت کے جنازہ کی تدفین کا عمل شروع
ہوچکاہے اس موقع پربال ٹھاکرے کی روح کواضطرابِ لغوکاسامنابھی کرناپڑااور
۲۵/سالہ اتحادیک قلم ٹوٹتاہوانظرآیا؛کیونکہ دونوں جماعت اقتدارکی خواہش
دیوانہ وارارضِ شیواجی میں بھٹک رہی تھی،جب کہ دیگرسیاسی جماعت کچھ نہ کچھ
سیٹ کی تحصیل میں کوشاں تھی تاکہ اپنی سیاسی شبیہ مسخ نہ ہواس عمل کے دوران
مسلم مسائل ،ریزرویشن،تعلیم،صحت وغیرہ سے دلچسپی تصویرِکالعدم جیسی ہی رہی
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟یادرکھئے!جب تک اس جمہوریت کے عددی کھیل میں
اپناکوئی سیاسی وزن اورمقام نہ ہوگاہمیں کوئی پوچھنے والانہ ہوگاہم مرتے
رہیں گے،ہمارے حقوق کا اتلاف ہوتارہے گا،ہمارے شخصی،ملی اور اجتماعی تشخص
پرسوالیہ نشان لگایاجاتارہے گااور ہمیں یہ خوف بھی محسوس ہورہاہے کہ اس
ہندوستان سے ہمارے وجودکوکالعدم نہ قرار دیاجائے ۔وجہ صاف عیاں ہے کہ ہم نے
صرف احتجاج او رمیمورنڈم کوہی اپنانصیبہ قراردیاہے اور اسی پرقانع ہیں،جب
کہ ضرورت ہے کہ ہم آپ بہ حیثیت مسلمان اپناایک سیاسی وزن او رمقام بنائیں
تاکہ اس بدلتے ہوئے ہندوستان میں ملت کا دفاع کرسکیں۔خدائے ذوالجلال نے علی
الاعلان ان الارض یرثہاعبادی الصالحون کہاہے اور بڑے ہی فخریہ انداز میں
انی جاعل فی الارض خلیفہ کہا خلافت ونیابت کا تقاضاتو یہ نہیں کہ ہم پر
مستقل ظلم ڈھائے جائے اور اف بھی کہنا جرم ہو!مسلم پرسنل لا میں
جبراًترمیم و اصلاح کی بات کی جائے اور ہم کرم کی طلب گار نگاہوں سے
اقتدارِ وقت کی طرف دیکھیںیادرکھیے!ہم اپنا شخصی،ملی،قومی اور مذہبی تشخص
اسی وقت برقراررکھ سکتے ہیں جب ہم عددی کھیل اور اس کھیل کے ماہرین کی
شعبدہ بازی اور تعصب کا ادراک کرسکیں ورنہ اقوام عالم میں جو ہماری حیثیت
فی الوقت ہے یقین کیجئے!وہ حیثیت کچھ سالوں کے بعد مزیدبدتر ہو جائے گی اور
ہم بہ حیثیت مسلمان اپنی ملت اور اپنے وجودکو ڈھونڈتے رہ جائیں گے اور اس
ہندوستان میں ٹوٹتی اور بکھرتی ہوئی جمہوریت کی فضامیں ہماری ذمہ داری اور
بھی بڑھ جاتی ہے ،اگرغفلت شعاری جاری رہی توسقوطِ خلافت عثمانیہ اورسقوطِ
سلطنتِ مغلیہ جیسی دل خراشیوں کاسامناکرنے کیلئے خودکوتیاررکھناچاہیے۔